داستانِ زندگی تو بہت خاموش ہے مگر

داستانِ زندگی تو بہت خاموش ہے مگر

داستانِ زندگی تو بہت خاموش ہے مگر

بہتے اشکوں  کا شور سننا چاہتا ہوں۔

ہے اُجالا بھی تو صبح کازب کی مانند

بس ایک امید ضرور دیکھنا چاہتا ہوں۔

منزل کہاں ہے پتا نہیں لیکن

پروانہ بن کر اُڑ جانا چاہتا ہوں۔

ہر چہرہ نقاب ہے نفرتوں کے اوپر

اور میں کیوں کر ان سے محبتیں لے جانا چاہتا ہوں۔

زندگی کا سفر کھو جاتا ہے۔

میں مخلوق قبر  ہوں مگر دنیا میں جینا چاہتا ہوں